Wednesday, October 17, 2018

دِل، عقل اور قُرآن

عقل، دل، اور حقیقت کی جستجو

انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنے جذبات، خیالات اور تصورات کو حقیقت کے آئینے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ کچھ چیزیں ہمارے دل کو بھا جاتی ہیں اور کچھ کو ہم بغیر کسی تردد کے مسترد کر دیتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب عقل اور دلائل کی ناگزیر اہمیت ہمارے سامنے آتی ہے۔

حقیقت تک پہنچنے کے لیے عقل اور استدلال بنیادی زینے ہیں۔ ان کا انکار جذباتیت کو جنم دیتا ہے، اور علمی دنیا میں محض جذباتی ردعمل کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ وہاں صرف وہی بات تسلیم کی جاتی ہے جو عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پوری اترے۔

“بات وہی چلے گی جس میں دم ہوگا،
نہ خاک باقی رہتی ہے، نہ خاک اُڑانے والے”

جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو کئی مقامات ایسے آتے ہیں جہاں ہماری شخصی سوچ اور قرآن کی ہدایات میں بظاہر تضاد محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً:
مرد کو چار شادیوں کی اجازت کیوں ہے؟
شوہر کو بعض حالات میں بیوی کی تادیب کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟
چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا کیوں مقرر کی گئی؟
مشرکین اور غیرمسلموں سے متعلق سخت احکامات کیوں دیے گئے؟
حضرت ابراہیمؑ نے اپنے ہی قبیلے کے بت کیوں توڑے، جبکہ ان کے والد ایک معزز بت تراش تھے؟
حضرت موسیٰؑ نے اپنی ہی قوم کے ہزاروں افراد کو کیوں قتل کروایا؟

یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہمارے ذہن میں گردش کرتے ہیں اور بسا اوقات دل اور عقل کے درمیان ایک تضاد پیدا کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً، انسان ایک فکری کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اگر ہر طرف سزا اور سختی ہی ہے تو پھر زندگی کا مفہوم کیا ہے؟

“ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا،
یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی”

عقل اور دل کی ہم آہنگی کیسے ممکن ہو؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عقل اور دل میں ہم آہنگی کیسے پیدا کی جائے؟ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اپنایا جائے؟ اگر میں ایک سائنسی اصول کی روشنی میں اس کیفیت کو دیکھوں تو یہ مساوات سامنے آتی ہے:

دل + عقل = حقیقت (اور دلائل اس میں ایک کَیٹالسٹ کا کام کرتی ہیں)

یعنی حقیقت تک پہنچنے کے لیے دلائل ایک محرک (catalyst) کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب تک دلائل کی روشنی میں چیزوں کو نہ سمجھا جائے، دل اور عقل ایک دوسرے کے مدمقابل رہیں گے۔ جہاں جذبات حاوی ہوں گے، وہاں عقل بے سمت ہو جائے گی، اور جہاں محض مادی استدلال ہوگا، وہاں دل بے قرار رہے گا۔

یہی وہ نکتہ ہے جسے علامہ اقبال نے ایک منفرد انداز میں بیان کیا تھا:

“ولی تاویل شان در حیرت انداخت،
خدا و جبرئیل و مصطفے را”

قرآن فہمی کا صحیح منہج

قرآن کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے سب سے ضروری بات اس کا زبان و بیان، سیاق و سباق اور اصل پس منظر کو سمجھنا ہے۔ قرآن خود اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ “عربی مبین” میں نازل ہوا ہے۔ اس کا اصل مخاطب قریشِ مکہ کی قوم تھی، جو مخصوص تہذیبی اور تاریخی پس منظر رکھتی تھی۔

اسی لیے حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا:

“تم اپنے دیوان (عربوں کے اشعار) کی حفاظت کرو، تم گمراہی سے بچے رہو گے۔”

یہی وجہ ہے کہ جب تک ہم عربی زبان کی باریکیوں، نزولِ وحی کے اسباب، اور اس دور کے عرب معاشرے کے مزاج سے آگاہ نہیں ہوں گے، ہم قرآن کے پیغام کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے۔

فکری جستجو کا سفر

ایک عام انسان، جو عربی زبان سے ناواقف ہے اور جاہلیت کے دور کے لسانی و سماجی پس منظر کو نہیں جانتا، وہ کہاں جائے؟ اسے وہیں جانا ہوگا جہاں قرآن خود اپنے الفاظ اور سیاق و سباق میں بات کرتا ہوا محسوس ہو۔ یہی فہم کا پہلا قدم ہوگا، لیکن آخری نہیں۔

“ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا،
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں”

اور شاید یہی وہ دلیل ہے جو روزِ محشر میں ہم اپنے رب کے حضور پیش کر سکیں گے:

“فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا،
یا اپنا گریباں چاک، یا دامنِ یزداں چاک!”

اختتامیہ

عقل اور دل کے درمیان پُل وہی لوگ قائم کر سکتے ہیں جو دلیل اور جذبات، دونوں کو ایک توازن میں رکھنا جانتے ہیں۔ جذبات کا انکار، عقل کا جبر ہے، اور عقل کا انکار، جذبات کا اندھا تعصب۔ سچائی ان دونوں کے امتزاج میں ہے، اور یہی امتزاج ہمیں حقیقت تک لے جا سکتا ہے۔

عامر یزدانی
مارچ ۲۰۱۸

No comments:

Post a Comment

Life Is a Cricket Test Match – It is Designed to Prove Your Mettle!

  "It's not about how fast you score, but how long you stay in the middle." — Anonymous cricket commentator Reading T...